برطانوی حکومت نے ایران کے خلاف امریکہ کی بیان بازی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے خلاف امریکہ کی بیان بازی سے مشرق وسطی کے حالات مزید پیچیدہ ہوسکتے ہیں۔
سنڈے ٹائمز کے مطابق برطانوی حکومت نے ایران کے خلاف امریکہ کے اشتعال انگیز بیانات پر امریکہ کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کے اشتعال انگیز بیانات سے مشرق وسطی کے حالات مزید پیچیدہ ہوسکتے ہیں۔
برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ ایران اور گروپ 1+5 کے درمیان مشترکہ ایٹمی معاہدے کے بارے میں امریکہ کی عدم پائبندی پر بھی تشویش ہے۔ بعض دیگر یورپی ممالک کے رہنماؤں کو بھی امریکہ کے ایران کے خلاف جارحانہ بیانات پر تشویش لاحق ہے۔
اطلاعات کے مطابق حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کے بیان کے بعد اسرائیل اور اس کے حامی ممالک کے چہرے مرجھا گئے ہیں ۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اسرائیل نے لبنان پر حملے کی کوشش کی تو پھر اسرائیل کو دیمونا کے ایٹمی پلانٹ کو خالی کردینا چاہیے کیونکہ اسرائیلی حملے کی صورت میں ہم دیمونا کو تباہ کردیں گے۔
پرنٹ Email
اپنے عزیز بابا کی رحلت کے بعد جناب _سیدہ فریاد کرتی ہیں : بابا ! میری طاقت جواب دے گئی- مجھے اپنی بھی خبر نہ رہی - میرے دشمن مجھے ملامت کرنے والے ہو گئے اور میرا باطنی رنج و الم مجھے مار رہا ہے - بابا ! میں حیران و مضطر تنہا رہ گئی - میری آواز دب گئی - میری کمر ٹوٹ گئی - میری زندگی مکدر ہو گئی اور میرا زمانہ تاریک ہو گیا - بابا ! آپ کے بعد مجھے تنہائ کے لئے کوئی مونس اور بہنے والے آنسوؤں کا پوچھنے والا نہیں ملتا اور نہ ہی اپنی کمزوری کے لئے کوئی مددگار نظر آتا ہے - بابا ! آپ کے بعد نزول _قران ، جبریل کی منزل اور میکائیل کا مرکز ناپید ہو گیا - بابا ! آپ کے بعد لوگوں کے روابط دگرگوں ہو گئے اور میرے لئے دروازے بند ہو گئے - آپ کے بعد دنیا سے بیزار ہو گئی - میں زندگی بھر آپ کا ماتم کرتی رہوں گی - آپ سے مجھے جو شغف ہے اور آپ کا جو غم ہے وہ کبھی ختم نہیں ہوگا - فریاد ہے بابا ! فریاد ہے بابا ! { بحار الانوار، جلد_٤٣، صفحہ_١٧٦، باب _٧ }
مظلوم کائنات مولا امیر المومنین علیہ السلام نے مظلومامہ کائنات سيدة النساء العالمين حضرت فاطمة سلام الله عليها کے دفن کے موقع پر فرمایا:-... یا رسول اللہ ص آپ کو میری جانب سے اور آپ کے پڑوس میں اترنے والی اور آپ سے جلد ملحق ہونے والی آپکی بیٹی کی طرف سے سلام ہو. یا رسول اللہ ص آپ کی برگزیدہ (بیٹی کی رحلت)سے میرا صبروشکیب جاتا رہا .میری ہمت و توانائی نے ساتھ چھوڑ دیا . لیکن آپکی مفارقت کے حادثہ عظمی اور آپ کی رحلت کے صدمہ جانکاہ پر صبر کر لینے کے بعد مجھے اس مصیبت پر بھی صبروشیکبائی ہی سے کام لینا پڑے گا جبکہ میں نے اپنے ہاتھوں سے آپ کو قبر کی لحد میں اتارا اور اس عالم میں آپ کی روح نے پرواز کی کے آپ کا سر میری گردن اور سینے کے درمیان رکھا تھا. انا لله وانا اليه راجعون . اب یہ امانت پلٹا لی گئی . گروی رکھی ہوئی چیز چھڑا لی گئی . لیکن میرا غم بے پایاں اور میری راتیں بے خواب رہیں گی.😭😭 یہاں تک کے خداوندعالم میرے لیے بھی اسی گھر منتخب کرےجس میں آپ رونق افروز ہیں وہ وقت آگیا کے آپ کی بیٹی آپکو بتائیں کے کس طرح آپکی امت نے ان پر ظلم ڈھانے کے لیے ایکا کر لیا آپ ان سے پورے طور پر پوچھیں اور تمام احوال و واردات دریافت کریں . یہ ساری مصیبتیں ان پر بیت گئیں . حالانکہ آپکو گذرے ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا اور نہ آپ کے تذکروں سے زبانیں بند ہوئی تھیں آپ دونوں پر میرا سلام رخصتی ہو نہ ایسا سلام جو کسی ملول و تنگ کی طرف سے ہوتا ہے. اب اگر میں اس جہگہ سے پلٹ جاوں تو اس لیے نہیں کے آپ سے میرا دل بھر گیا ہے.........😭😭 اور اگر ٹہرا رہوں تو اس لیے نہیں کے میں اس وعدہ سے بد ظن ہوں جو اللہ نے صبر کرنے والوں سے کیا ہے...... نہج البلاغہ ، خطبہ ۲۰۰
غلام سراج نے امام جعفر صادق ع سے شیعیان حیدر کرار کے اختلاف کے بارے مین پوچھا..تو امام ع نے ارشاد فرمایا.. کیا وہ ہماری ولایت کا اقرار کرتے ھیں اور تمہارے نظریات کے قایل نہیں لہزا تم ان سے بیزاری اختیار کرتے ھو? مین نے کہا جی ہاں. آپ ع نے فرمایا. ذرا یہ بتلاو ھمارے پاس ایسی چیزین ھین جو تمہارے پاس نہیں تو کیا ھمارے لیے سزاوار ھے کہ ھم تم سے بیزار ھو جایئں? مین نے کہا بخدا نہیں میں آپ پے قربان ھو جاوں. آپ ع نے فرمایا. اچھا اللہ کے پاس ایسی چیزیں ھیں جو ھمارے پاس نہی تو کیا اس نے ھمکو چھوڑدیا ھے? مین نے کہا نہی! بخدا نہی! میں آپ پہ قربان جاوں پھر ھم کیا کریں? امام ع نے فرمایا. ان سے دوستی برقرار رکھو اور ان سے بیزاری اختیار نہ کرو. مسلمانون مین سے ھر ایک کے پاس ایمان کا ایک مخصوص حصہ ھے کسی کے پاس ایک کسی کے پاس دو کسی کے پاس تین ھیں یہ سلسلہ دس تک چلتاھے کسی کو نہی چاھیے کہ وہ کم درجے والےکو اپنے درجے کی طرف لانے پر مجبور کرے.. ( اصول کافی مع شرح صافی ج 4 ص69 بحار الانوار ج15ص261)
قائد انقلاب اسلامی نے ستائیس دی تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق بارہ صفر چودہ سو بتیس ہجری قمری کو فقہ کے اجتہادی و استنباطی درس " درس خارج" سے قبل حسب معمول فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے دو اقوال مع تشریح بیان کئے۔ ان دونوں روایتوں میں دوستی کے پاس و لحاظ اور اس پر عطا ہونے والی جزا کا ذکر ہے۔ دونوں اقوال، ان کے ترجمے اور شرح پیش خدمت ہے؛ پہلی روایت: "عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ إِنَّ اللَّهَ تَعالی لَيَحْفَظُ مَنْ يَحْفَظُ صَدِيقَه" دوسری روایت: "قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع لَا تُفَتِّشِ النَّاسَ فَتَبْقَى بِلَا صَدِيق" ترجمہ: الکافی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت نقل کی گئی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ «انّ اللَّه تعالى ليحفظ من يحفظ صديقه»؛اللہ تعلی اس انسان کی حفاظت کرتا ہے جو اپنے دوست کی حفاظت کرے۔ تشریح: یہاں صرف جسمانی حفاظت مراد نہیں ہے۔ ممکن ہے یہ بھی مد نظر ہو لیکن یہاں مقصود ہے اس کی عزت و آبرو کی حفاظت، اس کی ساکھ اور اس کی شخصیت کی حفاظت، اس کے مفادات کی حفاظت۔ ایسا کرنے والے کی حفاظت اللہ خود کرتا ہے۔ اسلام میں دوستی، اخوت اور بھائي چارے کے رشتوں کو اتنی اہمیت دی گئی ہے! آپ اپنے دوست کی حفاظت کریں گے اس کا خیال رکھیں گے تو اللہ آپ کا خیال رکھے گا۔ البتہ دوست کی حفاظت کرنے اور اس کا خیال رکھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان اس کے گناہوں اور غلطیوں کی بھی توجیہ اور دفاع شروع کر دے۔ جماعتوں، تنظیموں اور گروہوں کی سطح پر یہ چیز دیکھنے میں آتی ہے کہ اگر کسی نے کوئی غلطی کر دی ہے تو چونکہ وہ ہمارے گروہ سے اور ہماری پارٹی سے تعلق رکھتا ہے اس لئے ہم اس کا دفاع کریں گے۔ یہاں یہ مراد نہیں ہے۔ حقیقت کی نگاہ سےدیکھا جائے تو یہ اس کی حفاظت نہیں یہ تو اسے رسوا کرنے، اسے نگوں بخت بنانے کے مترادف ہے۔ دوست کی حفاظت سے مراد ہے انسان اپنے اس مومن بھائی کی آبرو کی حفاظت کرے جس کا اس سے ایمانی اور دینی رشتہ ہے۔ یہ ایک روایت۔ ترجمہ: دوسری روایت بھی کافی میں موجود ہے جس میں حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ «لا تفتّش النّاس فتبقى بلا صديق» لوگوں کے کاموں کے سلسلے میں بہت زیادہ تجسس اور موشگافی نہ کرو۔ لوگوں کے چھوٹے بڑے عیوب تلاش کرنے میں مصروف نہ رہو۔ کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں تم دوستوں سے محروم ہو جاؤگے۔ تشریح:کوئی بھی ہو اس میں ایک نہ ایک عیب تو ہوتا ہی ہے۔ اب اگر آپ تفتیش اور تجسس میں پڑ جائيں گے اور سب کے بارے میں موشگافی کرنا شروع کر دیں گے تو آپ کی نظر میں کوئی اچھا انسان باقی ہی نہیں رہے گا۔ الکافی
قائد انقلاب اسلامی نے چھبیس دی تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق گیارہ صفر چودہ سو بتیس ہجری قمری کو فقہ کے اجتہادی و استنباطی درس " درس خارج" سے قبل حسب معمول فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک قول مع تشریح بیان کیا۔ اس روایت میں شیطان کے غلبے سے بچنے کا طریقہ بتایا گيا ہے۔ یہ قول زریں، اس کا ترجمہ اور شرح پیش خدمت ہے؛ کتاب الفقیہ میں منقول ہے؛ "قَالَ الصَّادِقُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ع مَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَاعِظٌ مِنْ قَلْبِهِ وَ زَاجِرٌ مِنْ نَفْسِهِ وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ قَرِينٌ مُرْشِدٌ اسْتَمْكَنَ عَدُوَّهُ مِنْ عُنُقِه" ترجمہ و تشریح: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ دشمن (یہاں مراد شیطان ہے) کے مقابلے میں انسان کو استقامت اور تقویت عطا کرنے والی اور اسے دشمن کے تسلط میں جانے اور اس سے مغلوب ہونے سے بچانے والی سب سے پہلی چیز ہے؛ "واعظ من قلبھ" انسان کا ناصح قلب۔ دل اگر بیدار و متنبہ ہو تو انسان کو نصیحت کرتا رہتا ہے۔ انسان کے دل کو اپنی نصیحت پر آمادہ کرنے اور اپنی ذات کے لئے واعظ بنانے میں صحیفہ سجادیہ اور دیگر کتب میں منقول دعاؤں اور اسی طرح صبح کی بیداری کا بہت اہم کردار ہے۔ یہ چیزیں انسان کے دل کو اس کے لئے ناصح اور واعظ بنا دیتی ہیں۔ تو پہلی چیز ہے ناصح قلب۔ دوسری چیز ہے؛ "زاجر من نفسہ" یعنی انسان کے اندر کوئی روکنے والا، منع کرنے والا اور خبردار کرنے والا ہو۔ اگر یہ دونوں چیزیں نہ ہوں اور " ولم یکن لہ قرین مرشد" رہنمائی کرنے والا کوئی ساتھی بھی نہ ہو جو اس کی رہنمائی اور مدد کر سکے، کہ جو شیطان کے غلبے سے بچانے والی تیسری چیز ہے، (تو عین ممکن ہے کہ اس پر شیطان غالب آ جائے)۔ اگر انسان کے اندر کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جو اس کی ہدایت کرے، اس کے نفس کو قابو میں رکھے تو اسے کسی دوست اور ہمنوا کی شدید ضرورت ہے۔ ایسا ہمنوا جس کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ " من یذکرکم اللہ رویتھ" جس کا دیدار تمہیں اللہ کی یاد دلائے۔ اگر وہ شخص ایسے دوست سے بھی محروم ہے تو "استمکن عدوہ من عنقھ" اس نے خود کو اپنے دشمن کا مطیع بنا لیا ہے، اپنے اوپر دشمن کو مسلط کر لیا ہے۔ دشمن سے مراد شیطان ہے۔ تو یہ چیزیں ضروری ہیں۔ انسان کا ضمیر اسے نصیحت دیتا ہے۔ کسی بھی انسان کے لئے بہترین ناصح خود اس کا ضمیر ہے کیونکہ انسان کبھی اپنے ضمیر کی بات کا برا نہیں مانتا۔ اگر کسی اور نے نصیحت کی اور لہجہ ذرا سا سخت اور تند ہوا تو انسان برا مان جاتا ہے لیکن جب انسان کا ضمیر نصیحت کرتا ہے، ملامت کرتا ہے، خود کو ناسزا کہتا ہے، سرزنش کرتا ہے تو یہ چیز بہت موثر واقع ہوتی ہے۔ یہ نصیحت اور موعظہ بہت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہی یا اس خصوصیت کے فقدان کی صورت میں ایسے دوست اور ہمدرد کا ہونا ضروری ہے جو انسان کی مدد کرے۔ شافی، صفحهى 652